
المادۃ:العربیۃ
(Arabic) بسم
اللہ الرّحمن الرّحیم
:(Class:6th) محمد
یہ ہائی اسکول کنزز
(حصہ اول:معلم الاسلام)
مدینے کے وہ مسلمان جنہوں نے ہجرت کے بعد
رسول اللہ ﷺ اور مکے سے آنے والے مسلمان مہاجرین کی مدد کی۔ انصار و مہاجرین کا ذکر قرآن میں آیا
ہے اور لوگوں کو ان کے اتباع کی تلقین کی گئی ہے۔ انصار جمع ہے ناصر و نصیر کی۔
مددگار۔ قرآن مجید میں جہاں مہاجرین و انصار کا ذکر آیا ہے وہاں انصار سے مراد
انصار مدینہ ہیں جو نبی کریم ﷺ کی نصرت کے بدولت اس لقب سے سرفراز کیے گئے۔ مدنی
زندگی میں اگرچہ مسلمانوں کی یہ دو تقسیمیں تھیں۔ مگر رسول اللہ نے ابتدا ہی سے ان
میں بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ غزوہ بدر سے پہلے جب حضور نے صحابہ کرام کو مشورے کے
لے جمع کیا تو مہاجرین نے جان نثارانہ تقریریں کیں۔ اس کے بعد حضور نے انصار کی
طرف دیکھا۔ کیونکہ ان سے معاہدہ تھا کہ وہ صرف اس وقت تلواریں اٹھائیں گے جب دشمن
مدینہ پر چڑھ آئیں گے۔ سعد بن عبادہ سردار بنو خزرج نے کہا کہ آپ فرمائیں تو ہم سمندر میں کود پڑیں۔ مقداد نے کہا
کہ ہم حضرت موسی کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے آپ اور آپ کاخدا لڑیں۔ ہم یہاں
بیٹھے ہیں۔ ہم تو آپ کے داہنے سے، بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے۔
نوٹ ۔ اپنی کتاب
کے صفہ نمبر 163 ،164 ، کا غور فکر سے
پڑھے ۔
سوال ١: اسلامی
بھائی چارہ سے کیا مراد ہے ؟
جواب : رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان اسلامی
بھائی چارہ کا رشتہ قائم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو آپس میں
بھائی بھائی بنا دیا۔ تاریخ میں یہ رشتہ اُخوت (مدنی بھائی چارہ) کے نام سے جانا
جاتا ہے ۔
سوال ۔٢:
انصار سے کون لوگ مراد ہیں؟
جواب: تمام
مہاجرین کو مکہ مکرمہ میں گھر ، عزیز
واقارب اور دوست احباب تھے لیکن جب یہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تو خالی ہاتھ
تھے مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے مہاجرین کی بھر پور مدد کی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان
لوگوں کو انصار کا خطاب عطا فرمایا ہے
سوال ٣: مہاجرین
سے مراد کون لوگ ہیں؟
جواب: مہاجرین
سے مراد مکہ مکرمہ کے وہ مسلمان ہیں جنہوں نے کفارِ مکہ کے ظلم سے تنگ آکر مکہ
مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہجرت کی ۔
سوال ٤: حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع
کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: انس بن
مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں جمع کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور
مہاجرین کو مخاطب کرکے فرمایا ,, تم لوگ آپس میں بھائی بھائی ہو اس لے ایک ایک
انصاری اور مہاجر کے درمیان بھائی چارہ کا
رشتہ قائم کئے دیتا ہوں ،، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین
کا نام لے کر انہیں ایک دوسرے کا بھائی اور دُکھ درد کا ساتھی قرار دیا.
سوال ٥: انصار کا ایثار بیان کرو۔
جواب ۔
انصار نے
مہاجرین کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ وہ خود تکالیف برداشت
کر
لیتے مگر
مہاجرین کے آرام کا پورا خیال رکھے۔ الی مدینے کا پیشہ کاشت کاری تھا اور مہاجرین
کے پیشہ
سے منسلک تھے
۔ یہ کھیتی باڑی کرنا نہیں جانتے تھے۔ انصار مدینے مہاجرین کو اپنی پیداوار میں ت
با قاعدہ حصہ
دیتے رہے، انصار مدینہ کے ایثار کی مثالیں سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔
رسول الله سلم
نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو حضرت سعد بن
ربیع کا دینی بھائی بنایا
تھا۔ حضرت سعد
مالدار آوی تھے انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف دل سے کہا کہ آپ
میرے تمام مال
کا آدھا حصہ لے لیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا: اللہ تعالی آپ
کے مال میں
برکت دے، مجھے بازار کا راستہ بتا د یجئے
تاکہ میں وہاں کوئی تجارت کرسکوں، تھوڑے
ہی عرصے میں
حضرت عبدالرحمن بن عوف ان کی تجارت میں اتنی برکت ہوئی کہ ان کا مال تجارت
سیکڑوں أوشوں
پر جانے لگا۔
مدنی بھائی
چارہ کی بدولت مہاجرین کی پریشانیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ انہیں امن و سکون حاصل ہوا،
اور
وہ آہستہ
آہستہ مکہ مکرمہ چھٹ جانے کا صدمہ بھول گئے۔ بھائی چارہ کی وجہ سے مدینہ منورہ میں
اسلامی معاشرہ
قائم ہوا۔ مہاجرین اور انصار نے اشاعت اسلام کے لئے مل کر کام کیا اور لوگوں تک
اللہ تعالی کا
پیغام پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال کے عرصے میں ہی اسلام دور دور تک پھیل گیا۔
ہمیں بھی چاہئے کہ انصار مدینہ کی طرح ایثار کا عملی
مظاہرہ کریں اور دوسرے مسلمانوں کی ضرویات
کو اپنی ضروریات
پر تری دیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں