منگل، 23 مارچ، 2021

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2020

7th سبق ۔ دعا کی اہمیت و فضیلت

کوئی تبصرے نہیں:

 


  محمدیہ ہای اسکول  کنزر گلمرگ سبق ۔ دعا کی اہمیت و فضیلت

الحمد للہ وصلاۃ وسلام  علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  .وبعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کیلئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کیلئے ترغیب  بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ

ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔[غافر : 60]

اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے)

ترمذی (3372) ، ابو داود (1479) ، ابن ماجہ (3828) البانی نے اسے "صحیح ترمذی" (2590) میں صحیح قرار دیا ہے۔

دعا کے آداب: دعا کرنے والا شخص توحید  ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید اسماء و صفات میں وحدانیت  الہی کا قائل ہو، اس کا دل عقیدہ توحید سے سرشار ہونا  چاہیے؛ کیونکہ  دعا کی قبولیت  کیلئے شرط  ہے کہ انسان اپنے رب کا مکمل فرمانبردار ہو اور نافرمانی  سے   دور ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

ترجمہ: اور جس وقت  میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو میں قریب ہوں، ہر دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب بھی وہ دعا کرے، پس وہ میرے احکامات کی تعمیل کریں، اور مجھ پر اعتماد رکھیں، تا کہ وہ رہنمائی  پائیں [البقرة : 186

2- دعا میں اخلاص ہونا، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ     

ترجمہ: اور انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ  یکسو ہو کر صرف اللہ کی عبادت کریں۔[البينة : 5]

اور یہ بات  سب کیلئے عیاں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دعا  ہی عبادت ہے، چنانچہ قبولیتِ دعا کیلئے اخلاص شرط ہے۔

3- اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کا واسطہ دے کر اللہ سے مانگا جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِاور اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، انہی کے واسطے سے اللہ کو پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں سے متعلق الحاد کا شکار ہیں۔ [الأعراف : 180]

دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی شایانِ شان حمد و ثنا، چنانچہ ترمذی: (3476) میں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کیساتھ بیٹھے ہوئے تھے، کہ ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی [پھر اسی دوران دعا کرتے ہوئے]کہا: "یا اللہ! مجھے معاف کر دے، اور  مجھ پر رحم فرما" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اے نمازی! تم نے جلد بازی سے کام لیا، جب تم نماز میں [تشہد کیلئے ]بیٹھو، تو پہلے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کرو، پھر مجھ پر درود پڑھو، اور پھر اللہ سے مانگو)

ترمذی (3477)کی ہی ایک اور روایت  میں ہے کہ: (جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو [تشہد میں] سب سے پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، اور اس کے بعد جو دل میں آئے مانگ لے) راوی کہتے ہیں: "اس کے بعد  ایک اور شخص نے نماز پڑھی، تو اس نے اللہ کی حمد بیان کی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (اے نمازی! اب دعا مانگ لو، تمہاری دعا قبول ہوگی)" اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ترمذی" (2765 ، 2767) میں صحیح کہا ہے۔

5- نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (ہر دعا شرفِ قبولیت سے محروم رہتی ہے، جب تک اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھا جائے)

طبرانی نے "الأوسط" (1/220)  میں روایت کیا ہے، اور شیخ البانی نے اسے  "صحیح الجامع" (4399) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

سوالات ۔  ؟

1۔ للہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کی کیا اہمیت ہے؟

جواب ۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگنا اعلی درجے کی عبادت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عبادت کی روح قرار دیا ہے۔جب کوئی بندہ انتہائی عاجزی اور انکساری سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجات پیش کرتا ہے اور اسی کو حاجت روا اور کارساز سمجھتا ہے تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے

وال ٢-دعا مانگنے کی فضیلت بیان کرو۔

جواب۔   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے ۔

سوال ٣- قرآن کریم میں دعا مانگنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کیا ارشاد ہے ؟

جواب۔  اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة

آیت نمبر   186      و َاِذَا سَاَلَـكَ عِبَادِىۡ عَنِّىۡ فَاِنِّىۡ قَرِيۡبٌؕ اُجِيۡبُ دَعۡوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡا لِىۡ وَلۡيُؤۡمِنُوۡا بِىۡ لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُوۡنَ ترجمہ:اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں

سوال ٣-دعا مانگنے کے کوئی پانچ آداب بیان کرو۔ ؟

جواب۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلا کر دعا مانگا کرتے تھے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے، اس کی حمد و ثنا کرتے،اس کی رحمتوں اور نعمتوں کا شکر بجالاتے اور سب سے آخر میں اپنی حاجت وضرورت کا اظہار کیا کرتے تھے  ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی طریقہ تھا۔

نوٹ ۔ ان سوالات کو اچھی طرح   یاد کرنا ۔ 

آپ کا عربی کا معلم   { عبدالمومن سلفی  7051677550}

2nd سورۃ الماعون 28.09.2020

کوئی تبصرے نہیں:

 

Study Material

28.09.2020تاریخَ: 

المادۃ:العربیۃ (Arabic)      بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

:(Class2nd  )                       محمد یہ ہائی اسکول کنزز

 (107) سورۃ الماعون (مکی، آیات 7)

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ

اَرَاَيْتَ الَّـذِىْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ (1)

کیا آپ نے اس کو دیکھا جو روزِ جزا کو جھٹلاتا ہے۔

فَذٰلِكَ الَّـذِىْ يَدُعُّ الْيَتِـيْمَ (2)

پس وہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

وَلَا يَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ (3)

اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ (4)

پس ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے۔

اَلَّـذِيْنَ هُـمْ عَنْ صَلَاتِـهِـمْ سَاهُوْنَ (5)

جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔

اَلَّـذِيْنَ هُـمْ يُرَآءُوْنَ (6)

جو دکھلاوا کرتے ہیں۔

وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (7)

اور برتنے کی چیز تک روکتے ہیں۔

 

نوٹ  ۔۔   اس سورت کو اپنی  کاپی کا نقل کرئیں    {  اور    زبانی یاد کیجے}

الصبی الفیل Class:10th )

کوئی تبصرے نہیں:

 

لمادۃ:العربیۃ (Arabic)       بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

:(Class:10th )                       محمد یہ ہائی اسکول کنزز

(حصہ اول: العربیہ )

    موضوع ۔       ۔۔

: كان ولد ينظر الفيل في حديقة الحيوانات ،

ایک لڑکا چڑیا گھر میں ہاتھی کی طرف دیکھ رہا تھا

: فمد يده إليه بتفاحة

پھر اس نے اپنا ہاتھ ایک سیب کے ساتھ اس کی طرف بڑھایا

: ولما هم الفيل أن ياخذها قبض الصبيده حتى يصل الفيل إلى التفاحة

اور جب  ہاتھی نے  اسے  لینا چاہئے ، تو لڑکے نے اسے پیچھے کیا  ۔

: ثم عاد ومد يده بالتفاحة مرة ثانية ، وعمل كما عمل أول مرة .

پھر اس نے ایک بار پھر سیب سے ہاتھ بڑھایا ، اور ایسا ہی کیا جیسے اس نے پہلی بار کیا تھا۔

: فغضب الفيل ، ولكنه صبر على الصبی

چنانچہ ہاتھی ناراض ہوگیا ، لیکن وہ لڑکے کے ساتھ صبر کرتا رہا

: حتی مها عنه وم خرطومه وخطف طربوشه فزعق الولد وبگی

یہاں تک کہ  ہاتھی کا سونڈ

لڑکے پر پڑا پس لڑکے روپڑا

: قمة الفينيل خرطومه ، بالطربوش ولما هم الولد ، أن يأخذه قبض طومه

لڑکے نے ہاتھی کے  سونڈا کی رسی کو  پکڑا کر کھینچا

: وعمل معه كما عمل هو مع الفيل . فضحك الناس كبير

اور اس نے ہاتھی کے ساتھ کام کرتے  ہوئے اس کے ساتھ کام کیا۔  لوگ بڑے ہنسے

بدھ، 16 ستمبر، 2020

7th موضوع ۔ عمر فاروق نے بت کدہ ایران کی آگ ہمیشہ کے لے سرد کردی

کوئی تبصرے نہیں:

 

Study Material

17.09.2020تاریخَ: 

المادۃ:العربیۃ (Arabic)      بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

:(Class:7th )                       محمد یہ ہائی اسکول کنزز

(حصہ اول:صراط اللغتہ العربیہ )

    موضوع ۔   عمر فاروق  نے بت کدہ ایران کی آگ ہمیشہ کے لے  سرد کردی

ضرت سعد ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سفراء کی واپسی کے بعد دشمنان اسلام سے جنگ وقتال کے سوا دوسرے تمام راستے بند ہو گے اور سعد اپنے  صرف اڑتیس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ شاہ فارس یزید گرد ثالث کی دو لاکھ چالیس ہزار فوجیوں پر مشتمل فوج سے ٹکرا جانے کےلے تیار ہوگے ایرانی فوج کا کمانڈر ان چیف رستم  نامی سپہ سالار تھا جو اپنی جنگی مہارتوں اور قوت و دبدبہ کے اعتبار سے پورے ایران میں مشہور تھا اور اس کی معاونت کے لیے اس کے دائیں اور بائیں ہر مزان جالینوس بمھن جادویہ ہر مزان اور مہران جیسے بڑے بڑے ایران کمانڈر اور سورما موجود تھے ایرانی فوج اب حملہ کے لے تیار تھی ۔

پڑھو اور سمجھو

ا پنی کتاب کے صفہ نمبر271   

6th سبق کا نام ۔ اللہ کے بندوں کے حقوق

کوئی تبصرے نہیں:

Study Material

17.09.2020تاریخَ: 

المادۃ:العربیۃ (Arabic)      بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

:(Class:6th )                       محمد یہ ہائی اسکول کنزز

(حصہ اول:صراط اللغتہ العربیہ )

    سبق  کا  نام ۔   اللہ کے بندوں کے حقوق

پڑوسیوں کے حقوق

وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴿٣٦﴾

اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (٤) سورہ النساء

پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں - ایک وہ ہوتے ہیں جو کہ کافر ہیں انکا ہم پر ایک حق ہے دوسرے وہ ہیں جو مسلمان اورپڑوسی بھی ہیں انکے دو حقوق ہیں اور تیسرا وہ ہے جسکے تین حقوق ہیں جو ہمارا پروسی بھی ہے مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی

حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کے لئے برابر ہمیں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ اس کو وارث بنادیں گے۔صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 973

وہ آدمی مومن نہیں ہے

ابوشریح کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ واللہ وہ آدمی مومن نہیں ہے، واللہ وہ آدمی مومن نہیں ہے، واللہ وہ آدمی مومن نہیں ہے، پوچھا گیا کون یا رسول اللہ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو- صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 975

جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے   حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس چاہیے کہ مہمان کی ضیافت کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 977

وہ شخص جہنمی ہے

ایک شخص اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ فلاں عورت کے تعلق سے مشہور ہے کہ وہ بہت زیادہ نوافل پڑھتی ہے صدقہ و خیرات کرتی ہے اور بہت زیادہ روزے رکھتی ہے لیکن اس میں ایک خامی ہے وہ یہ کہ اسکی زبان سے اسکا پڑوسی محفوظ نہیں – تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا وہ جہنمی ہے – اور ایک عورت ہے یا رسول اللہ ﷺ نہ وہ زیادہ نفل ادا کرتی ہے نہ وہ زیادہ صدقہ و خیرات کرتی ہے اور نہ ہی بکثرت روزے رکھتی ہے لیکن اسمیں ایک خوبی ہے وہ یہ کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں دیتی – تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا وہ جنتی ہے -مسند احمد

وہ شخص خوش نصیب ہے

اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص خوش نصیب ہے جسکو اچھا پڑوسی ملے کشادہ گھر ملے اور اچھی سواری نصیب ہو – مستدرک حاکم

برے پڑوسی سے اللہ کی پناہ

اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ میں برے پڑوسی سے تیری پناہ میں آتا ہوں – مستدرک حاکم

اگر کسی کا پڑوسی ٹھیک نہ ہو تو کیا کرے

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آیا اپنے پڑوسی کی شکایت کرتا ہوا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور صبر کرو وہ دو یا تین مرتبہ آیا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے نکال کر راستہ میں پھینک دو۔ اس نے اپنا سامان راستہ میں پھینک دیا لوگوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے ہمسائے کی تکلیف سے انہیں باخبر کردیا تو لوگ اس ہمسائے کو لعنت ملامت کرنے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ویسا کرے اس کا پڑوسی اس کے پاس آیا کہ تو سامان لے کر گھر لوٹ جا آئندہ مجھ سے ناگواری کوئی بات نہیں دیکھے گا۔ سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1742

پڑوسی کا حق  ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹیاں گاڑنے سے منع نہ کرے پھر ابوہریرہ (رض) کہتے تھے کہ کیا بات ہے کہ میں تم کو اس حدیث سے روگردانی کرنے والا پاتا ہوں واللہ میں تمہارے مونڈھوں کے درمیان گاڑ کر رہوں گا۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2362

پڑھو اور سمجھو

ا پنی کتاب کے صفہ نمبر171 

منگل، 8 ستمبر، 2020

2nd b طہارت

کوئی تبصرے نہیں:
2nd    (b)   
طہارت کی تعریف : طہارت کے معنیٰ پاکیزگی کے ہیں ‘اور اصطلاح شرع میں نجاست حکمی یا حقیقی سے پاک صاف ہونے کا نام طہارت ہے ۔
طہارت کی فضیلت : (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام پاک ہے پس تم پاکیزگی اختیار کرو کیونکہ جنت میں پاکیزہ لوگ ہی داخل ہوں گے۔ (۲) فرمایا کہ جنت کی کنجی نماز اور نماز کی کنجی طہارت ہے ۔ (۳) ارشاد ہواکہ طہارت نصف ایمان ہے۔ (۴) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پاک عابد کو دوست رکھتا ہے جو احکام میں شرع کے موافق پاکی کیا کرتا ہے (۵) فرمایا کہ تم اپنے جسموں کو پاک و صاف کرو
(تنبیہ) : طہارت کے اور بہت فضائل ہیں ۔ واضح ہو کہ طہارت نماز کیلئے ایسی ضروری چیز ہے جس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں بلکہ بعض علماء نے جان بوجھ کر بے طہارت نماز پڑھنے کو کفر لکھا ہے ۔
طہارت کے اقسام : طہارت کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) صغریٰ (۲) کبریٰ ۔ طہارت صغریٰ وضو ہے اور کبریٰ غسل ۔ پہلے وضو کے مسائل لکھے جاتے ہیں ۔
وضو کی تعریف : حدثِ اصغر سے پاک ہونے یعنی منہ ‘ ہاتھ ‘ پاؤں دھونے اور سر کا مسح کرنے کا نام وضو ہے ۔
وضوکی فضیلت : وضو کی فضیلت میں بہت احادیث وارد ہوئی ہیں یہاں چند لکھی جاتی ہیں : (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی مسنون طریقہ سے وضو کرے اور اس کے بعد کلمہ شہادت پڑھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں (جس دروازے سے چاہے داخل ہو) (۲) فرمایا کہ مسلمان بندہ جب وضو کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تمام (صغیرہ) گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ۔ (۳) وضو کی وجہ سے قیامت کے دن وضو کے اعضاء (منہ ‘ ہاتھ ‘ پیر ) چمکدار اور روشن ہوں گے ۔ (۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنی امت کو قیامت کے دن پہچان لوں گا ۔ کسی نے عرض کیا کہ حضور اتنے کثیر مجمع میں آپ کیسے پہچان لیں گے ؟ ارشاد ہوا کہ ایک پہچان ہوگی وہ یہ کہ وضو کی وجہ سے ان کے منہ ہاتھ پیر چمکدار ہوں گے ۔ (۵) با وضو رہنے سے آدمی شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے (۶) جو شخص وضو پرمداومت کرے گا (ہمیشہ با وضو رہیگا ) وہ شہید مرے گا ۔

7th (b) زکوٰۃ کے لغوی معنی اور مفہوم

کوئی تبصرے نہیں:
7th (b) زکوٰۃ کے لغوی معنی اور مفہوم
نماز کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے۔ لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کا لفظ دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک معنی پاکیزگی، طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے اور دوسرا معنی نشوونما اور ترقی کا ہے۔

 إبراهيم انيس، المعجم الوسيط، 1 : 396

زکوٰۃ کے اول الذکر معنی کی وضاحت قرآن مجید یوں کرتا ہے :

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo

’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)o‘‘

 الشمس، 91 : 9

اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں دنیوی و اخروی کامیابی کے لئے طہارت و تزکیۂ نفس کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اسے مدِ نظر رکھنے سے زکوٰۃ کا اطلاق راہِ خدا میں خرچ کیے جانے والے اس مال پر ہوتا ہے جو دولت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے اور جس طرح نفس کو آلائشوں سے پاک کیا جاتا ہے اسی طرح کھیتی کو فالتو جڑی بوٹیوں سے پاک صاف کرنے پر بھی لفظ زکوٰۃ کا اطلاق ہوتا ہے۔

زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشوونما پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا ہے۔

اس مفہوم کی رو سے زکوٰۃ کا اطلاق اس مال پر ہوتا ہے جسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ مال خدا کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے :

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO

’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعث) تسکین ہے اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo

ہفتہ، 5 ستمبر، 2020

سبق نمبر 5 صفہ نمبر 48

کوئی تبصرے نہیں:

صراط اللغۃ  العربیہ
سبق نمبر     5   صفہ نمبر     48  
حروف مشبہ بالفعل:
  وہ حروف جو فعل کے مشابہ ہیں۔ یہ چھ حروف ہیں : إِنَّ، أَنَّ، کَأَنَّ، لٰـکِنَّ، لَیْتَ، لَعَلَّ۔
Advertisement
ان حروف کے احکام اور فوائد:
  (۱)۔۔۔۔۔۔یہ تمام حروف جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں ، مبتدأ کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں. مبتدأ کو ”حرف مشبہ بالفعل کا اسم ”اور خبرکو”حرف مشبہ بالفعل کی خبر” کہتے ہیں ۔ جیسے: اِنَّ زَیْداً عَالِمٌ میں اِنَّ حرف مشبہ بالفعل ہے، زَیْداً اس کا اسم ہے اور اسی بناء پر منصوب ہے ، اور عَالِمٌ اِنَّ کی خبر ہے اور اسی بناء پر مرفوع ہے۔
  (۲)۔۔۔۔۔۔چونکہ حروف مشبہ بالفعل ،تعداد ِحروف میں، مبنی بر فتح ہونے میں ،فعل کا معنی دینے میں، نیز دو اسموں پر داخل ہونے میں فعل کی طرح ہوتے ہیں اس لیے انہیں ”حروف مشبہہ با لفعل” کہتے ہیں ۔اور اسی مشابہت کی بناء پر یہ عمل کرتے ہیں۔
  (۳)۔۔۔۔۔۔حروف مشبہ بالفعل کے اسم اور خبر کے وہی احکام ہیں جو مبتدأ وخبر کے ہیں ۔ سوائے اعراب کے ؛کہ مبتدأ وخبر دونوں مرفوع ہوتے ہیں جبکہ حروف مشبہ بالفعل کا اسم منصوب اوراِن کی خبرمرفوع ہوتی ہے۔نیز حروف مشبہہ بالفعل کی خبر کونہ توخود ان حروف پرمقدم کرناجائز ہے اور نہ ان کے اسماء پر۔ مگر جب خبر ظرف
 اجار کا مجرور ہو تو اسماء پر مقدم ہو سکتی ہے۔ جیسے: إِنَّ فِی الدَّارِ زَیْداً۔
  (۴)۔۔۔۔۔۔ بعض اوقات ان حروف کے بعدلفظ” ما” بھی آجاتا ہے جوان کو عمل سے روک دیتا ہے،نیز اس صورت میں یہ فعلوں پر بھی داخل ہو سکتے ہیں ۔ جیسے قرآن کریم میں ارشادہے:  (قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰی إِلَیَّ أَنَّمَا إِلٰھُکُمْ إِلٰہ ٌ وَّاحِدٌ ) اسے ”ماالکافۃ” کہاجاتاہے۔

یہ بلاگ تلاش کریں

https://irckunzer.blogspot.com

https://dawa360.blogspot.com

https://mominsalafi.blogspot.com

PH NO. -7051677550

الرجل و طائر 10th

DOWNLOAD PDF FILE  

 
back to top