MOHAMMADIYA HIGH SCHOOL KUNZER GULMARG
U2 FOR CLASS 7TH A +B { VIST OVER WEB-
WWW.MHSKARABIC.BLOGSPOT.COM
https://docs.google.com/document/d/1Pkfm3Ncd0a8DL0d7yuiWVmoWJq-QE37hkrJAtW1m-Ic/edit?usp=sharing
https://docs.google.com/document/d/1Pkfm3Ncd0a8DL0d7yuiWVmoWJq-QE37hkrJAtW1m-Ic/edit?usp=sharing
سوال 01)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے بارے میں کیا فرمایا
جواب 01)رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہے اور
جہنم کے دروازے بند کیے جاتے ہے۔
سوال 2۔ روزے کا مقصد کیا ہے
جواب2۔ روزے کا مقصد تقوی اختیار کرنا ہے
سوال 3۔ عید کا چاند نظر نہ آنے پر اسلام کا کیا حکم ہے؟
جواب3۔ عید کا چاند نظر نہ پر
اسلام نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ چاند
نظر نہ آ سکے تو پھر دنوں کا حساب لگاو ( یعنی 30 دن پورے کرو)۔
سوال4۔ روزے کی کیا اہمیت ہیں ۔
جواب 4۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا جو شخص (روزے کی حالت میں ) جھوٹ
اور باطل گفتگو اور اس پر عمل کرنے
سے باز نہ آئے ۔ اللہ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
سوا ل5۔ اسلام میں مسافر کے روزے کا کیا حکم ہے ؟
جواب5۔ حمزہ بن عمرو رضی اللہ عنہ
نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا میں سفر میں روزہ رکھوں
اس پر آّپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
کہا کہ ( چاہو تو روزہ رکھو اور چاہو نہ رکھو )۔
سوال 6۔ روزوں کی قضا کیا ہوتی ہے ( وضاحت کرے)؟
جواب6۔ عورتوں کے ساتھ فطری طور پر یہ مجبوری ہوتی ہے کہ ان کے لیے
مہینے کچندایام ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ جسمانی اور ذہنی طور پر تکلیف سے دوچار
ہوتی ہیں. شریعت نے ماہواری کے اِن ایام کی رعایت کرتے ہوئے اس حالت میں عورت پر
نماز جیسی اہم عبادت کو معاف کر دیا ہے. روزہ بھی عورت کو اس حال میں نہیں رکھنا
ہے البتہ روزوں کی قضا کرنی ہے.
ایامِ حیض میں چھوٹے ہوئے ان روزوں کی قضا عورت کو اگلے سال کا رمضان آنے سے پہلے ہر حال میں کر لینی چاہیے. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلاَّ فِي شَعْبَانَ
رمضان کے جو روزے مجھ سے چھوٹ جاتے تھے شعبان سے پہلے مجھے ان کی قضاء کی توفیق نہ ہوتی۔صحيح بخاري:1950
سوال 7۔ یوم عاشوراء کےروزے کی پانچ فائدے لکھئے ؟
ایامِ حیض میں چھوٹے ہوئے ان روزوں کی قضا عورت کو اگلے سال کا رمضان آنے سے پہلے ہر حال میں کر لینی چاہیے. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلاَّ فِي شَعْبَانَ
رمضان کے جو روزے مجھ سے چھوٹ جاتے تھے شعبان سے پہلے مجھے ان کی قضاء کی توفیق نہ ہوتی۔صحيح بخاري:1950
سوال 7۔ یوم عاشوراء کےروزے کی پانچ فائدے لکھئے ؟
جواب7۔
اس مناسبت کے تعلق سے چند فائدے :۔
١۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا مستحب ہے.
٢۔ یوم عاشوراء سے ایک دن پہلے یا ایک بعد میں روزہ رکھنا مستحب ہے تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو سکے جیسا کہ اس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ندیا ہے .
٣۔ اس دن کی بہت عظیم فضیلت ہے اور اس کی حرمت بہت قدیم ہے .
٤۔ اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ سابقہ امتوں میں وقت کی تحدید چاند کے اعتبار سے ہوا کرتی تھی نہ کہ انگریزی مہینوں کے اعتبار سے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے کہ دس محرم وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے فوعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا اور موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی .
٥۔ یہ (روزہ رکھنا) وہ خوبی ہے جو سنت سے اس دن کے متعلق ثابت ہے ، باقی رہے دیگر اعمال جو اس دن کئے جاتے ہیں تو وہ سب کے سب بدعت ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے خلاف ہیں.
یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے شمار فضل و احسان ہے کہ وہ ایک دن کے روزہ کے عوض پورے ایک سال کے گناہ معاف کردیتا ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ عظیم فضل والا ہے .
١۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا مستحب ہے.
٢۔ یوم عاشوراء سے ایک دن پہلے یا ایک بعد میں روزہ رکھنا مستحب ہے تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو سکے جیسا کہ اس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ندیا ہے .
٣۔ اس دن کی بہت عظیم فضیلت ہے اور اس کی حرمت بہت قدیم ہے .
٤۔ اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ سابقہ امتوں میں وقت کی تحدید چاند کے اعتبار سے ہوا کرتی تھی نہ کہ انگریزی مہینوں کے اعتبار سے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے کہ دس محرم وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے فوعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا اور موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی .
٥۔ یہ (روزہ رکھنا) وہ خوبی ہے جو سنت سے اس دن کے متعلق ثابت ہے ، باقی رہے دیگر اعمال جو اس دن کئے جاتے ہیں تو وہ سب کے سب بدعت ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے خلاف ہیں.
یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے شمار فضل و احسان ہے کہ وہ ایک دن کے روزہ کے عوض پورے ایک سال کے گناہ معاف کردیتا ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ عظیم فضل والا ہے .
سوال 8۔ نفلی روزہ توڑ دینے کا کیا حکم ہے ؟
جواب8۔ اگر
انسان نفلی روزہ رکھے، پھر اسے کھانے، پینے یا جماع کے ذریعہ توڑ دے، تو اسے گناہ
نہیں ہوگا کیونکہ حج و عمرہ کے سوا دیگر کسی بھی عبادت کو شروع کرنے کے بعد مکمل
کرنا لازم نہیں ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ اسے پورا کرے،
صراط لالغۃ العربیہ
درس نمبر 03 مرکب اضافی:(
مبتدا اور خبر)
وہ اسماء کے درمیان اضافت یا ملکیت کا تعلق ہو تو ان سے ملنے والا مرکب مرکب اضافی کہلاتا ہے
جس اسم کی اضافت بیان کی جائے وہ مضاف کہلاتا ہے اور جس اسم سے تعلق بیان کیا جائے وہ مضاف الیہ کہلاتا ہے
جیسے
عبدُاللہِ (اللہ کا بندہ)
میں عبد مضاف اور اللہ مضاف الیہ ہے
رسولُ اللہِ (اللہ کا رسول)
میں رسول مضاف اور اللہ مضاف الیہ ہے
قواعد:
1.مضاف ہمیشہ نکرہ ہوتا اور مضاف الیہ ہمیشہ معرفہ ہوتا ہے.
2.مضاف اکثر مرفوع (حالت رفع میں) ہوتا ہے اور مضاف الیہ لازما مجرور (حالت جر) میں ہوتا ہے.
3. تثنیہ یا جمع سالم کے مضاف ہونے کی صورت میں دونوں کا "ن" گرجاتا ہے.
مثالیں:
ابنا خالدٍ
بنتا زیدٍ
مسلمو الھندِ
بنوا اسرائیلَ
نوٹ: ان مثالوں میں آپ نوٹ کریں گے کہ ان اسماء کو بھی ذکر کیا گیا جن کے ساتھ متصل ضمائر لگے ہیں
اس کی وجہ یہ ہے کہ ضمیر بھی اسم کی اقسام میں سے ہیں اور معرفہ ہے جبکہ اس سے پہلے والا اسم ان سب مثالوں میں نکرہ ہے تو یہ اسم مع ضمیر متصل بھی مرکب اضافی کی مثال ہوی. ضمائر مبنی ہوتے ہیں لہذا ان میں حالت جر کی صورت میں تغییر واقع نہی ہوتا.
وہ اسماء کے درمیان اضافت یا ملکیت کا تعلق ہو تو ان سے ملنے والا مرکب مرکب اضافی کہلاتا ہے
جس اسم کی اضافت بیان کی جائے وہ مضاف کہلاتا ہے اور جس اسم سے تعلق بیان کیا جائے وہ مضاف الیہ کہلاتا ہے
جیسے
عبدُاللہِ (اللہ کا بندہ)
میں عبد مضاف اور اللہ مضاف الیہ ہے
رسولُ اللہِ (اللہ کا رسول)
میں رسول مضاف اور اللہ مضاف الیہ ہے
قواعد:
1.مضاف ہمیشہ نکرہ ہوتا اور مضاف الیہ ہمیشہ معرفہ ہوتا ہے.
2.مضاف اکثر مرفوع (حالت رفع میں) ہوتا ہے اور مضاف الیہ لازما مجرور (حالت جر) میں ہوتا ہے.
3. تثنیہ یا جمع سالم کے مضاف ہونے کی صورت میں دونوں کا "ن" گرجاتا ہے.
مثالیں:
ابنا خالدٍ
بنتا زیدٍ
مسلمو الھندِ
بنوا اسرائیلَ
نوٹ: ان مثالوں میں آپ نوٹ کریں گے کہ ان اسماء کو بھی ذکر کیا گیا جن کے ساتھ متصل ضمائر لگے ہیں
اس کی وجہ یہ ہے کہ ضمیر بھی اسم کی اقسام میں سے ہیں اور معرفہ ہے جبکہ اس سے پہلے والا اسم ان سب مثالوں میں نکرہ ہے تو یہ اسم مع ضمیر متصل بھی مرکب اضافی کی مثال ہوی. ضمائر مبنی ہوتے ہیں لہذا ان میں حالت جر کی صورت میں تغییر واقع نہی ہوتا.
صراط [کا سوال 4: کی وضاحت ]
عربی زبان
میں جملے کی دو اقسام ہیں
1. جملہ اسمیہ
2.جملہ فعلیہ
جملہ اسمیہ:
جملہ اسمیہ وہ جملہ ہوتا ہے جو اسم سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ
اللہُ کریمٌ (اللہ کریم ہے)
زیدٌ حسنٌ (زید خوبصورت ہے)
جملہ اسمیہ میں پہلے جز کو مبتدا کہا جاتا ہے اور دوسرے کو خبر یعنی جس کے متعلق بات ہورہی ہے وہ مبتدا ہے اور جو بات ہورہی ہے وہ خبر ہے
قواعد:
مبتدا عموما معرفہ ہوتا ہے اور خبر نکرہ
جیسے المسجدُ جمیلٌ میں المسجد معرفہ ہے اور مبتدا ہے اور جمیلٌ نکرہ اور خبر
مبتدا اور خبر دونوں مرفوع ہوتے ہیں
جیسے الرجلُ صالحٌ
نوٹ: اگر خبر مبتدا کی صفت نہ ہو تو خبر معرفہ لائی جاسکتی ہے
جیسے ھو عمرو،ٌ ھو زیدٌ، ھو بکرٌ
واحد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث میں خبر مبتدا کے مطابق آئے گی.
جیسے
الولدُ قائمٌ (لڑکا کھڑا ہے)
البنتُ قائمةٌ (لڑکی کھڑی ہے)
الرجلانِ نائمانِ (دو آدمی سوئے ہیں)
المرءتانِ نائمتانِ (دو عورتیں سوئی ہیں)
الرجالُ جالسون (بہت سارے مرد بیٹھے ہیں)
النساءُ جالساتٌ (بہت ساری عورتیں بیٹھی ہیں)
خبر کی تین اقسام ہیں
خبر مفرد
خبر جملہ
خبر شبہ جملہ
اگر مبتدا کے بعد خبر اسم ہو تو وہ خبر مفرد کہلائی گی
جیسا کہ
زیدٌ نائمٌ (زید سویا ہے)
البنتُ قائمةٌ (لڑکی کھڑی ہے)
اس میں نائم اور قائمة خبر مفرد ہیں
اگر مبتدا کے خبر فعل مضارع آئے تو یہ خبر خبر جملہ کہلائے گی
جیسے
زید ینام (زید سوتا ہے)
اسماء تضرب (اسماء مارتی ہے)
ان دو میں ینام اور یضرب خبر جملہ ہے
اگر مبتدا کے بعد حرف جر آجائے تو وہ خبر خبر شبہ جملہ کہلائے گی
زید فی الفصل (زید کلاس میں ہے)
عمر فی البیت (عمر گھر میں ہے)
ان میں فی الفصل اور فی البیت خبر شبہ جملہ ہیں.
اگر مبتدا غیر عاقل کی جمع ہو تو خبر واحد مؤنث آئے گی
الحیواناتُ سمینةٌ (جانور موٹے ہیں)
الاشجارُ طویلةٌ (درخت لمبے ہیں)
جب خبر اسمائے استفہام ( interrogative noun) میں سے ہو تو خبر کو مبتدا سے مقدم کردیا جاتا ہے.
جیسے
کیف أبوك؟ (آپ کے ابا کیسے ہیں)
یہ اصل میں أبوك كيف ھے لیکن کیف جو کہ خبر ہے اس کو مقدم کرلیا گیا ہے
کیف حالك؟ (آپ کا کیا حال ہے)
اگر خبر معرفہ ہو تو مبتدا اور خبر کے درمیان ایک ضمیر لائی جاتی ہے جسے ضمیر فاصل کہتے ہیں. یہ ضمیر مبتدا کے مطابق ہوتی ہے.
جیسے
اولئک ھم الفاسقون (وہ ہی فاسق ہیں)
اولئک ھم المفلحون (وہ ہی کامیاب ہیں)
اولئک ھم الصادقون (وہ ہی سچے ہیں)
نوٹ: یہ ترکیب تاکید کے لیے استمال کی جاتی ہے
1. جملہ اسمیہ
2.جملہ فعلیہ
جملہ اسمیہ:
جملہ اسمیہ وہ جملہ ہوتا ہے جو اسم سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ
اللہُ کریمٌ (اللہ کریم ہے)
زیدٌ حسنٌ (زید خوبصورت ہے)
جملہ اسمیہ میں پہلے جز کو مبتدا کہا جاتا ہے اور دوسرے کو خبر یعنی جس کے متعلق بات ہورہی ہے وہ مبتدا ہے اور جو بات ہورہی ہے وہ خبر ہے
قواعد:
مبتدا عموما معرفہ ہوتا ہے اور خبر نکرہ
جیسے المسجدُ جمیلٌ میں المسجد معرفہ ہے اور مبتدا ہے اور جمیلٌ نکرہ اور خبر
مبتدا اور خبر دونوں مرفوع ہوتے ہیں
جیسے الرجلُ صالحٌ
نوٹ: اگر خبر مبتدا کی صفت نہ ہو تو خبر معرفہ لائی جاسکتی ہے
جیسے ھو عمرو،ٌ ھو زیدٌ، ھو بکرٌ
واحد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث میں خبر مبتدا کے مطابق آئے گی.
جیسے
الولدُ قائمٌ (لڑکا کھڑا ہے)
البنتُ قائمةٌ (لڑکی کھڑی ہے)
الرجلانِ نائمانِ (دو آدمی سوئے ہیں)
المرءتانِ نائمتانِ (دو عورتیں سوئی ہیں)
الرجالُ جالسون (بہت سارے مرد بیٹھے ہیں)
النساءُ جالساتٌ (بہت ساری عورتیں بیٹھی ہیں)
خبر کی تین اقسام ہیں
خبر مفرد
خبر جملہ
خبر شبہ جملہ
اگر مبتدا کے بعد خبر اسم ہو تو وہ خبر مفرد کہلائی گی
جیسا کہ
زیدٌ نائمٌ (زید سویا ہے)
البنتُ قائمةٌ (لڑکی کھڑی ہے)
اس میں نائم اور قائمة خبر مفرد ہیں
اگر مبتدا کے خبر فعل مضارع آئے تو یہ خبر خبر جملہ کہلائے گی
جیسے
زید ینام (زید سوتا ہے)
اسماء تضرب (اسماء مارتی ہے)
ان دو میں ینام اور یضرب خبر جملہ ہے
اگر مبتدا کے بعد حرف جر آجائے تو وہ خبر خبر شبہ جملہ کہلائے گی
زید فی الفصل (زید کلاس میں ہے)
عمر فی البیت (عمر گھر میں ہے)
ان میں فی الفصل اور فی البیت خبر شبہ جملہ ہیں.
اگر مبتدا غیر عاقل کی جمع ہو تو خبر واحد مؤنث آئے گی
الحیواناتُ سمینةٌ (جانور موٹے ہیں)
الاشجارُ طویلةٌ (درخت لمبے ہیں)
جب خبر اسمائے استفہام ( interrogative noun) میں سے ہو تو خبر کو مبتدا سے مقدم کردیا جاتا ہے.
جیسے
کیف أبوك؟ (آپ کے ابا کیسے ہیں)
یہ اصل میں أبوك كيف ھے لیکن کیف جو کہ خبر ہے اس کو مقدم کرلیا گیا ہے
کیف حالك؟ (آپ کا کیا حال ہے)
اگر خبر معرفہ ہو تو مبتدا اور خبر کے درمیان ایک ضمیر لائی جاتی ہے جسے ضمیر فاصل کہتے ہیں. یہ ضمیر مبتدا کے مطابق ہوتی ہے.
جیسے
اولئک ھم الفاسقون (وہ ہی فاسق ہیں)
اولئک ھم المفلحون (وہ ہی کامیاب ہیں)
اولئک ھم الصادقون (وہ ہی سچے ہیں)
نوٹ: یہ ترکیب تاکید کے لیے استمال کی جاتی ہے
آپ. کی کتاب میں جو سوالات دئے گئے ہے اب ان کو پورا کرو ۔۔۔۔
{عبد المومن سلفی فون نمبر 7051677550}
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں