بدھ، 16 ستمبر، 2020

7th موضوع ۔ عمر فاروق نے بت کدہ ایران کی آگ ہمیشہ کے لے سرد کردی

کوئی تبصرے نہیں:

 

Study Material

17.09.2020تاریخَ: 

المادۃ:العربیۃ (Arabic)      بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

:(Class:7th )                       محمد یہ ہائی اسکول کنزز

(حصہ اول:صراط اللغتہ العربیہ )

    موضوع ۔   عمر فاروق  نے بت کدہ ایران کی آگ ہمیشہ کے لے  سرد کردی

ضرت سعد ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سفراء کی واپسی کے بعد دشمنان اسلام سے جنگ وقتال کے سوا دوسرے تمام راستے بند ہو گے اور سعد اپنے  صرف اڑتیس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ شاہ فارس یزید گرد ثالث کی دو لاکھ چالیس ہزار فوجیوں پر مشتمل فوج سے ٹکرا جانے کےلے تیار ہوگے ایرانی فوج کا کمانڈر ان چیف رستم  نامی سپہ سالار تھا جو اپنی جنگی مہارتوں اور قوت و دبدبہ کے اعتبار سے پورے ایران میں مشہور تھا اور اس کی معاونت کے لیے اس کے دائیں اور بائیں ہر مزان جالینوس بمھن جادویہ ہر مزان اور مہران جیسے بڑے بڑے ایران کمانڈر اور سورما موجود تھے ایرانی فوج اب حملہ کے لے تیار تھی ۔

پڑھو اور سمجھو

ا پنی کتاب کے صفہ نمبر271   

6th سبق کا نام ۔ اللہ کے بندوں کے حقوق

کوئی تبصرے نہیں:

Study Material

17.09.2020تاریخَ: 

المادۃ:العربیۃ (Arabic)      بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

:(Class:6th )                       محمد یہ ہائی اسکول کنزز

(حصہ اول:صراط اللغتہ العربیہ )

    سبق  کا  نام ۔   اللہ کے بندوں کے حقوق

پڑوسیوں کے حقوق

وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴿٣٦﴾

اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے (١) اور پہلو کے ساتھی سے (٢) اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) (٣) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (٤) سورہ النساء

پڑوسی تین طرح کے ہوتے ہیں - ایک وہ ہوتے ہیں جو کہ کافر ہیں انکا ہم پر ایک حق ہے دوسرے وہ ہیں جو مسلمان اورپڑوسی بھی ہیں انکے دو حقوق ہیں اور تیسرا وہ ہے جسکے تین حقوق ہیں جو ہمارا پروسی بھی ہے مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی

حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کے لئے برابر ہمیں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ اس کو وارث بنادیں گے۔صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 973

وہ آدمی مومن نہیں ہے

ابوشریح کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ واللہ وہ آدمی مومن نہیں ہے، واللہ وہ آدمی مومن نہیں ہے، واللہ وہ آدمی مومن نہیں ہے، پوچھا گیا کون یا رسول اللہ! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو- صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 975

جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے   حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس چاہیے کہ مہمان کی ضیافت کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 977

وہ شخص جہنمی ہے

ایک شخص اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ فلاں عورت کے تعلق سے مشہور ہے کہ وہ بہت زیادہ نوافل پڑھتی ہے صدقہ و خیرات کرتی ہے اور بہت زیادہ روزے رکھتی ہے لیکن اس میں ایک خامی ہے وہ یہ کہ اسکی زبان سے اسکا پڑوسی محفوظ نہیں – تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا وہ جہنمی ہے – اور ایک عورت ہے یا رسول اللہ ﷺ نہ وہ زیادہ نفل ادا کرتی ہے نہ وہ زیادہ صدقہ و خیرات کرتی ہے اور نہ ہی بکثرت روزے رکھتی ہے لیکن اسمیں ایک خوبی ہے وہ یہ کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں دیتی – تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا وہ جنتی ہے -مسند احمد

وہ شخص خوش نصیب ہے

اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص خوش نصیب ہے جسکو اچھا پڑوسی ملے کشادہ گھر ملے اور اچھی سواری نصیب ہو – مستدرک حاکم

برے پڑوسی سے اللہ کی پناہ

اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ میں برے پڑوسی سے تیری پناہ میں آتا ہوں – مستدرک حاکم

اگر کسی کا پڑوسی ٹھیک نہ ہو تو کیا کرے

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آیا اپنے پڑوسی کی شکایت کرتا ہوا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور صبر کرو وہ دو یا تین مرتبہ آیا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے نکال کر راستہ میں پھینک دو۔ اس نے اپنا سامان راستہ میں پھینک دیا لوگوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے ہمسائے کی تکلیف سے انہیں باخبر کردیا تو لوگ اس ہمسائے کو لعنت ملامت کرنے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ویسا کرے اس کا پڑوسی اس کے پاس آیا کہ تو سامان لے کر گھر لوٹ جا آئندہ مجھ سے ناگواری کوئی بات نہیں دیکھے گا۔ سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1742

پڑوسی کا حق  ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹیاں گاڑنے سے منع نہ کرے پھر ابوہریرہ (رض) کہتے تھے کہ کیا بات ہے کہ میں تم کو اس حدیث سے روگردانی کرنے والا پاتا ہوں واللہ میں تمہارے مونڈھوں کے درمیان گاڑ کر رہوں گا۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2362

پڑھو اور سمجھو

ا پنی کتاب کے صفہ نمبر171 

منگل، 8 ستمبر، 2020

2nd b طہارت

کوئی تبصرے نہیں:
2nd    (b)   
طہارت کی تعریف : طہارت کے معنیٰ پاکیزگی کے ہیں ‘اور اصطلاح شرع میں نجاست حکمی یا حقیقی سے پاک صاف ہونے کا نام طہارت ہے ۔
طہارت کی فضیلت : (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام پاک ہے پس تم پاکیزگی اختیار کرو کیونکہ جنت میں پاکیزہ لوگ ہی داخل ہوں گے۔ (۲) فرمایا کہ جنت کی کنجی نماز اور نماز کی کنجی طہارت ہے ۔ (۳) ارشاد ہواکہ طہارت نصف ایمان ہے۔ (۴) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پاک عابد کو دوست رکھتا ہے جو احکام میں شرع کے موافق پاکی کیا کرتا ہے (۵) فرمایا کہ تم اپنے جسموں کو پاک و صاف کرو
(تنبیہ) : طہارت کے اور بہت فضائل ہیں ۔ واضح ہو کہ طہارت نماز کیلئے ایسی ضروری چیز ہے جس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں بلکہ بعض علماء نے جان بوجھ کر بے طہارت نماز پڑھنے کو کفر لکھا ہے ۔
طہارت کے اقسام : طہارت کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) صغریٰ (۲) کبریٰ ۔ طہارت صغریٰ وضو ہے اور کبریٰ غسل ۔ پہلے وضو کے مسائل لکھے جاتے ہیں ۔
وضو کی تعریف : حدثِ اصغر سے پاک ہونے یعنی منہ ‘ ہاتھ ‘ پاؤں دھونے اور سر کا مسح کرنے کا نام وضو ہے ۔
وضوکی فضیلت : وضو کی فضیلت میں بہت احادیث وارد ہوئی ہیں یہاں چند لکھی جاتی ہیں : (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی مسنون طریقہ سے وضو کرے اور اس کے بعد کلمہ شہادت پڑھے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں (جس دروازے سے چاہے داخل ہو) (۲) فرمایا کہ مسلمان بندہ جب وضو کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تمام (صغیرہ) گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ۔ (۳) وضو کی وجہ سے قیامت کے دن وضو کے اعضاء (منہ ‘ ہاتھ ‘ پیر ) چمکدار اور روشن ہوں گے ۔ (۴) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنی امت کو قیامت کے دن پہچان لوں گا ۔ کسی نے عرض کیا کہ حضور اتنے کثیر مجمع میں آپ کیسے پہچان لیں گے ؟ ارشاد ہوا کہ ایک پہچان ہوگی وہ یہ کہ وضو کی وجہ سے ان کے منہ ہاتھ پیر چمکدار ہوں گے ۔ (۵) با وضو رہنے سے آدمی شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے (۶) جو شخص وضو پرمداومت کرے گا (ہمیشہ با وضو رہیگا ) وہ شہید مرے گا ۔

7th (b) زکوٰۃ کے لغوی معنی اور مفہوم

کوئی تبصرے نہیں:
7th (b) زکوٰۃ کے لغوی معنی اور مفہوم
نماز کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن زکوٰۃ ہے۔ لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کا لفظ دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک معنی پاکیزگی، طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے اور دوسرا معنی نشوونما اور ترقی کا ہے۔

 إبراهيم انيس، المعجم الوسيط، 1 : 396

زکوٰۃ کے اول الذکر معنی کی وضاحت قرآن مجید یوں کرتا ہے :

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo

’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)o‘‘

 الشمس، 91 : 9

اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں دنیوی و اخروی کامیابی کے لئے طہارت و تزکیۂ نفس کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اسے مدِ نظر رکھنے سے زکوٰۃ کا اطلاق راہِ خدا میں خرچ کیے جانے والے اس مال پر ہوتا ہے جو دولت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرتا ہے اور جس طرح نفس کو آلائشوں سے پاک کیا جاتا ہے اسی طرح کھیتی کو فالتو جڑی بوٹیوں سے پاک صاف کرنے پر بھی لفظ زکوٰۃ کا اطلاق ہوتا ہے۔

زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشوونما پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا ہے۔

اس مفہوم کی رو سے زکوٰۃ کا اطلاق اس مال پر ہوتا ہے جسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ مال خدا کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے :

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO

’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعث) تسکین ہے اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo

ہفتہ، 5 ستمبر، 2020

سبق نمبر 5 صفہ نمبر 48

کوئی تبصرے نہیں:

صراط اللغۃ  العربیہ
سبق نمبر     5   صفہ نمبر     48  
حروف مشبہ بالفعل:
  وہ حروف جو فعل کے مشابہ ہیں۔ یہ چھ حروف ہیں : إِنَّ، أَنَّ، کَأَنَّ، لٰـکِنَّ، لَیْتَ، لَعَلَّ۔
Advertisement
ان حروف کے احکام اور فوائد:
  (۱)۔۔۔۔۔۔یہ تمام حروف جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں ، مبتدأ کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں. مبتدأ کو ”حرف مشبہ بالفعل کا اسم ”اور خبرکو”حرف مشبہ بالفعل کی خبر” کہتے ہیں ۔ جیسے: اِنَّ زَیْداً عَالِمٌ میں اِنَّ حرف مشبہ بالفعل ہے، زَیْداً اس کا اسم ہے اور اسی بناء پر منصوب ہے ، اور عَالِمٌ اِنَّ کی خبر ہے اور اسی بناء پر مرفوع ہے۔
  (۲)۔۔۔۔۔۔چونکہ حروف مشبہ بالفعل ،تعداد ِحروف میں، مبنی بر فتح ہونے میں ،فعل کا معنی دینے میں، نیز دو اسموں پر داخل ہونے میں فعل کی طرح ہوتے ہیں اس لیے انہیں ”حروف مشبہہ با لفعل” کہتے ہیں ۔اور اسی مشابہت کی بناء پر یہ عمل کرتے ہیں۔
  (۳)۔۔۔۔۔۔حروف مشبہ بالفعل کے اسم اور خبر کے وہی احکام ہیں جو مبتدأ وخبر کے ہیں ۔ سوائے اعراب کے ؛کہ مبتدأ وخبر دونوں مرفوع ہوتے ہیں جبکہ حروف مشبہ بالفعل کا اسم منصوب اوراِن کی خبرمرفوع ہوتی ہے۔نیز حروف مشبہہ بالفعل کی خبر کونہ توخود ان حروف پرمقدم کرناجائز ہے اور نہ ان کے اسماء پر۔ مگر جب خبر ظرف
 اجار کا مجرور ہو تو اسماء پر مقدم ہو سکتی ہے۔ جیسے: إِنَّ فِی الدَّارِ زَیْداً۔
  (۴)۔۔۔۔۔۔ بعض اوقات ان حروف کے بعدلفظ” ما” بھی آجاتا ہے جوان کو عمل سے روک دیتا ہے،نیز اس صورت میں یہ فعلوں پر بھی داخل ہو سکتے ہیں ۔ جیسے قرآن کریم میں ارشادہے:  (قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰی إِلَیَّ أَنَّمَا إِلٰھُکُمْ إِلٰہ ٌ وَّاحِدٌ ) اسے ”ماالکافۃ” کہاجاتاہے۔

جمعہ، 4 ستمبر، 2020

سلام کرنا t2

کوئی تبصرے نہیں:

(حصہ اول:معلم الاسلام)
سلام کرنا ۔  قرآن و حدیث  کی روشنی میں۔
عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ ﷺ:)لاتدخلون الجنة حتی تؤمنوا،ولا تؤمنوا حتی تحابوا،أو لا أدلُّکم علی شيء إذا فعلتموہ تحاببتم؟ اَفشوا السلام بینکم) 1
''سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ''تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ اور تم ایمان نہیں لاسکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو اور کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جسے اپنا کرتم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو؟ وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو عام کرو۔'' یعنی ایک دوسرے کو خوب سلام کیا کرو۔
عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ ﷺ: (للمؤمن علی المؤمن ست خصال: یعودہ إذا مرض ویشھدہ إذا مات ویُجیـبه إذا دعاہ ویُسلِّم علیه إذا لقِیَه ویشمته إذا عطس وینصح له إذا غاب أو شھد) 2
''سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مؤمن کے دوسرے مؤمن پرچھ حقوق ہیں : جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمارپُرسی کرےجب وہ فوت ہوجائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہو، جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، جب اسے چھینک آئے (اور وہ الحمدﷲکہے) تو اسے یرحمک اﷲ (اللہ آپ پررحم فرمائے) کہہ کررحمت کی دعا دے اور اس کی غیر حاضری یا موجودگی میں اس کی خیرخواہی کرے۔
عن عبداﷲ بن عمرو أن رجلا سأل رسول اﷲ ﷺ أي الإسلام خیر؟ قال: (تطعم الطعام وتقرأ السلام علی من عرفتَ ومن لم تَعرف) 3
''سیدنا عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاکہ کون سا اسلام بہتر ہے (یعنی اسلام میں خیروخوبی کی بات کون سی ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کھاناکھلانا اور ہر شخص کو سلام کرنا چاہے وہ واقف ہو یا ناواقف''
عن أبي أمامة قال قال رسول اﷲ ﷺ: (إن أولیٰ الناس باﷲ تعالیٰ مَن بَدَأھم بالسلام) 4
''لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو اُنہیں سلام کہنے میں ابتداکرے۔''
عن عبد اﷲ یعني ابن مسعود عن النبي ﷺ قال: (السلام اسم من أسمآء اﷲ تعالیٰ وضعه في الأرض فأفشوہ بینکم فإن الرجل المسلم إذا مرَّ بقوم فسلَّم علیھم فردوہ علیه کان له علیهم فضل درجة بتذکیرہ إیاھم السلام فإن لم یردوا ردّ علیه من ھو خیر منھم) 5
''سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اس نے زمین پررکھ دیا ہے۔ پس تم سلام کوآپس میں (خوب) پھیلاؤ کیونکہ مسلمان شخص جب کسی قوم پر گزرتاہے اور انہیں سلام کرتاہے اور وہ اس کو سلام کا جواب دیتے ہیں تو اس کے لیے ان پر ایک درجہ فضیلت ہے کیونکہ اس نے ان کو سلام یاد کرایا ہے اور اگر وہ لوگ اس کے سلام کا جواب نہ دیں تو اسے وہ جواب دے گا جو ان سے بہتر ہے۔''
سیدنا انسؓ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں رکھ دیا ہے۔پس تم سلام کوآپس میں (خوب) پھیلاؤ۔
سیدنا انسؓ کی یہ حدیث مختصر ہے اور اس کی سند صحیح ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی حدیث بھی شواہد کی وجہ سے 'حسن' ہے۔
عن البراء بن عازب، قال قال رسول اﷲ! (أفشوا السلام تسلموا والأشرة شر) 6
''سیدنا براء بن عازبؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''سلام کو پھیلاتے رہو تو تم سلامتی میں رہو گے اورتکبر اور حق کاانکار شر کا باعث ہے۔''
یعنی تکبر و بطرکی وجہ سے سلام کا جواب نہ دینا شر کا سبب ہے۔بطر کامطلب 'حق کا انکار کرنا' ہے۔
عن أبي الدرداء قال:قال رسول اﷲ!: (أفشوا السلام کي تعلوا) 7
سیدنا ابودردائؓ فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''سلام کو پھیلاؤ تاکہ تم سربلند ہوجاؤ۔
سیدنا عبداللہ بن سلامؓ اِرشاد فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ فوراً آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے ، لوگوں نے کہا کہ اللہ کے رسولؐ تشریف لے آئے ہیں ۔ لوگوں کیساتھ میں بھی آپ کی زیارت کے لیے گیا جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ اقدس کو توجہ سے دیکھاتومجھے یقین ہوگیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جوکلام فرمایا وہ یہ تھا:
یأیھا الناس أفشوا السلام،وأطعموا الطعام وصلُّوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنة بسلام 8
''لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلایا کرو، رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو تم نماز پڑھا کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔''
عن أبي هریرة قال قال رسول اﷲ ﷺ :(أعجز الناس من عجز في الدعاء وأبخل الناس من بخل بالسلام) 9
''سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''لوگوں میں عاجز ترین شخص وہ ہے کہ جودعاء سے عاجز آگیاہو اورلوگوں میں بخیل و کنجوس ترین شخص وہ ہے کہ جو سلام میں بخل کرے۔''
   [  نوٹ   ]  مزید اس درس کو  پڑھنے کے لے اپنی کتاب  کا صفہ نمبر   209 سے 212 تک پڑھے،

منگل، 1 ستمبر، 2020

6TH T1 MADNIE

کوئی تبصرے نہیں:

Rounded Rectangle: Study Material T1(مدنی بھائی چارہ)
 
Rounded Rectangle: 01.09.2020تاریخَ: المادۃ:العربیۃ (Arabic)      بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
:(Class:6th)                       محمد یہ ہائی اسکول کنزز
(حصہ اول:معلم الاسلام)
مدینے کے وہ مسلمان جنہوں نے ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ اور مکے سے آنے والے مسلمان مہاجرین کی مدد کی۔ انصار و مہاجرین کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور لوگوں کو ان کے اتباع کی تلقین کی گئی ہے۔ انصار جمع ہے ناصر و نصیر کی۔ مددگار۔ قرآن مجید میں جہاں مہاجرین و انصار کا ذکر آیا ہے وہاں انصار سے مراد انصار مدینہ ہیں جو نبی کریم ﷺ کی نصرت کے بدولت اس لقب سے سرفراز کیے گئے۔ مدنی زندگی میں اگرچہ مسلمانوں کی یہ دو تقسیمیں تھیں۔ مگر رسول اللہ نے ابتدا ہی سے ان میں بھائی چارہ کرا دیا تھا۔ غزوہ بدر سے پہلے جب حضور نے صحابہ کرام کو مشورے کے لے جمع کیا تو مہاجرین نے جان نثارانہ تقریریں کیں۔ اس کے بعد حضور نے انصار کی طرف دیکھا۔ کیونکہ ان سے معاہدہ تھا کہ وہ صرف اس وقت تلواریں اٹھائیں گے جب دشمن مدینہ پر چڑھ آئیں گے۔ سعد بن عبادہ سردار بنو خزرج نے کہا کہ آپ فرمائیں تو ہم سمندر میں کود پڑیں۔ مقداد نے کہا کہ ہم حضرت موسی کی قوم کی طرح یہ نہیں کہیں گے آپ اور آپ کاخدا لڑیں۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ ہم تو آپ کے داہنے سے، بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے۔
نوٹ ۔  اپنی کتاب کے صفہ نمبر  163 ،164 ، کا غور فکر سے پڑھے ۔
سوال ١: اسلامی بھائی چارہ سے کیا مراد ہے ؟
جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان اسلامی بھائی چارہ کا رشتہ قائم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔ تاریخ میں یہ رشتہ اُخوت (مدنی بھائی چارہ) کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
سوال ۔٢: انصار سے کون لوگ مراد ہیں؟
جواب: تمام مہاجرین کو  مکہ مکرمہ میں گھر ، عزیز واقارب اور دوست احباب تھے لیکن جب یہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تو خالی ہاتھ تھے مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے مہاجرین کی بھر پور مدد کی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو انصار کا خطاب عطا فرمایا ہے
سوال ٣: مہاجرین سے مراد کون لوگ ہیں؟
جواب: مہاجرین سے مراد مکہ مکرمہ کے وہ مسلمان ہیں جنہوں نے کفارِ مکہ کے ظلم سے تنگ آکر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہجرت کی ۔
سوال ٤: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں جمع کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کو مخاطب کرکے فرمایا ,, تم لوگ آپس میں بھائی بھائی ہو اس لے ایک ایک انصاری  اور مہاجر کے درمیان بھائی چارہ کا رشتہ قائم کئے دیتا ہوں ،، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کا نام لے کر انہیں ایک دوسرے کا بھائی اور دُکھ درد کا ساتھی قرار دیا.
سوال ٥:  انصار کا ایثار بیان کرو۔
جواب ۔
انصار نے مہاجرین کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ وہ خود تکالیف برداشت کر
لیتے مگر مہاجرین کے آرام کا پورا خیال رکھے۔ الی مدینے کا پیشہ کاشت کاری تھا اور مہاجرین کے پیشہ
سے منسلک تھے ۔ یہ کھیتی باڑی کرنا نہیں جانتے تھے۔ انصار مدینے مہاجرین کو اپنی پیداوار میں ت
با قاعدہ حصہ دیتے رہے، انصار مدینہ کے ایثار کی مثالیں سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔
رسول الله سلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف  کو حضرت سعد بن ربیع  کا دینی بھائی بنایا
تھا۔ حضرت سعد مالدار آوی تھے انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف دل سے کہا کہ آپ
میرے تمام مال کا آدھا حصہ لے لیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا: اللہ تعالی آپ
کے مال میں برکت دے، مجھے بازار کا راستہ بتا د یجئے  تاکہ میں وہاں کوئی تجارت کرسکوں، تھوڑے
ہی عرصے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ان کی تجارت میں اتنی برکت ہوئی کہ ان کا مال تجارت
سیکڑوں أوشوں پر جانے لگا۔
مدنی بھائی چارہ کی بدولت مہاجرین کی پریشانیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ انہیں امن و سکون حاصل ہوا، اور
وہ آہستہ آہستہ مکہ مکرمہ چھٹ جانے کا صدمہ بھول گئے۔ بھائی چارہ کی وجہ سے مدینہ منورہ میں
اسلامی معاشرہ قائم ہوا۔ مہاجرین اور انصار نے اشاعت اسلام کے لئے مل کر کام کیا اور لوگوں تک
اللہ تعالی کا پیغام پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال کے عرصے میں ہی اسلام دور دور تک پھیل گیا۔
ہمیں  بھی چاہئے کہ انصار مدینہ کی طرح ایثار کا عملی مظاہرہ کریں اور دوسرے مسلمانوں کی ضرویات
کو اپنی ضروریات پر تری دیں۔


یہ بلاگ تلاش کریں

https://irckunzer.blogspot.com

https://dawa360.blogspot.com

https://mominsalafi.blogspot.com

PH NO. -7051677550

الرجل و طائر 10th

DOWNLOAD PDF FILE  

 
back to top